سائنسدانوں کی ڈولفن کی ایک نسل دریافت کی ہے جو ڈھائی کروڑ سال پہلے پائی جاتی تھی۔
ناپید ہونے والے اس جانور کے بارے میں ان نمونوں کے دوبارہ معائنے کے بعد بتایا گیا کو سنہ 1951 سے ایک عجائب گھر میں رکھے ہوئے تھے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے یہ ڈولفن کی اس نسل کاتعلق جنوبی ایشیا میں ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار دریائی ڈولفن سے تھا، اس سے نئی نسل کے ارتقا کے شواہد بھی ملتے ہیں۔
یہ تحقیق ایک جریدے پیرجے میں شائع ہوئی ہیں۔
تقریباً 22 سینٹی میٹر لمبے سر کے حصے کا فوسل ماہر ارضیات ڈونلڈ جے ملر نے جنوب مشرقی الاسکا میں دریافت کیا تھا۔
اس کے بعد یہ کئی دہائیوں تک واشنگٹن ڈی سی کے سمتھسونین میوزیم آف نیچرل ہسٹری کا حصہ بنا رہا۔
right;">
حالیہ تحقیق کرنے والے محققین الیگزینڈر بوئرسما اور نکولس پینسن کا کہنا ہے کہ یہ ڈولفن نیم قطبی پانیوں میں ڈھائی کروڑ سال پہلے تیرتی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ نمونہ ایک مختلف نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کا انھوں نے علم حیوانیات کی زبان میں ’ارکٹوکارا یاکاٹاگا‘ نام دیا ہے۔
اس قدیم کھوپڑی کے معائنے اور اس کے دیگر موجود اور ناپید ہوجانے والی ڈولفنز کے ساتھ موازنے کے بعد محققین کا کہنا ہے یہ جنوبی ایشیائی دریاؤں میں پائی جانے والی ڈولفن پلاٹنیسٹا کی رشتے دار ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس گروہ سے تعلق رکھنے والی مختلف نسل کی ڈولفنز کس طرح کم ہوتے ہوتے صرف جنوبی ایشائی نسل تک محدود ہوگئی جو کبھی مختلف نسلوں کی تھیں اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھیں، یہ ایک معمہ ہے، لیکن ہر چھوٹا سا ٹکرا اس کہانی کو سلجھانے میں مدد دے سکتا ہے۔